سب بہت پریشان میرے میاں سب سے زیادہ پریشان۔ دماغ کے ڈاکٹر کے پاس گئے۔ انہوں نے کہا کہ دماغ کی ایم آر آئی کروائیں۔ علاج بھی کافی مہنگا تھا۔ پھر حکیم صاحب سے رابطہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ ایم آر آئی نہیں کروائیں۔ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔
میں کراچی میں رہتی ہوں۔ میرے ساتھ ایک عجیب واقعہ ہوا کہ ایک روز دوپہر کے وقت میری آنکھ میں خارش ہوئی۔ میں ملتی ہوئی آئینے میں دیکھنے لگی تو مجھے محسوس ہوا کہ میری آنکھ میں فرق ہوگیا ہے۔ ایک بڑی اور ایک چھوٹی ہے۔ میں نے سوچا کہ میرا وہم ہے۔ پھر میرے میاں کھانے کیلئے آئے تو میں نے انہیں بتایا تو وہ دیکھ کر کہنے لگے کہ واقعی آنکھ چھوٹی بڑی ہے۔ ڈاکٹر کو دکھاﺅ۔ سامنے گھر کے بچوں کے اسپیشلسٹ بیٹھتے ہیں انہیں دکھایا۔ انہوں نے دوا دی مگر فرق نہیں ہوا اور سوجن آگئی۔ پھر انہوں نے آنکھ کے ڈاکٹر کا بتایا کہ وہاں چلی جاﺅ۔ اسے دکھایا تو انہوں نے مہنگی دوائیاں لکھ دیں۔ چشمہ لکھ دیا کہ دور کی نظر خراب ہے۔ ان کی دوا استعمال کی تو بہت تکلیف ہوئی۔ پھر انہیں جاکر بتایا تو انہوں نے کہا گھبرانے کی بات نہیں ہے۔ آپ کی پلک پر دانہ ہوگیا ہے۔ اس دوران آنکھ کی پلک گرگئی تھی۔ ذرا سی آنکھ کھلتی تھی۔ ان کی دوا سے فائدہ نہیں ہوا۔ میں نے دوا بند کردی۔ پھر ان ہی دنوں میری والدہ اور بھائی بہن کنڈیارو سے آگئے۔ امی نے بھی کہا کہ پلک میں دانہ ہو تو ورم آجاتا ہے۔ تھوڑے دن میں آرام آجائے گا۔ میں نے امی سے کہا کہ مجھے دانے کا درد محسوس نہیں ہوتا اور لگتا نہیں ہے کہ مجھے دانہ ہے۔ پھر امی ڈاکٹر کے پاس جانے لگی تو بہن نے کہا کہ آپ چلی جاﺅ۔ ڈاکٹر کو دکھادینا۔ پھر وہاں بھائی سے کہا کہ مجھے ڈاکٹر کو دکھاﺅ ۔بھائی نے کہا کہ تم جہاں دکھارہی ہو وہی سہی ہے۔ اس طرح میں وہاں نہیں دکھاسکی اور گھر آگئی۔ امی تو صبح چلی گئیں اور شام تک میری آنکھ پر پھر سوجن آگئی تو میں دوسرے ڈاکٹر کے پاس گئی اور بتایا کہ فلاں ڈاکٹر کو دکھایا ہے تو انہیں غصہ آگیا اور وہ خوب شور کرنے لگے کہ آپ انہیں ڈاکٹر کہتی ہیں وہ ڈاکٹر نہیں ہے۔ آپ کی آنکھ پر کوئی دانہ نہیں ہے۔ آپ کی آنکھ پر فالج کا حملہ ہوا ہے اور آپ دماغ کے ڈاکٹر کو دکھائیں اور آپ شکر کریں کہ یہ اب تک آپ کے ہاتھ اور پیر پر نہیں ہوا۔ یہ سن کر مجھے جھٹکا تو لگا مگر اللہ پر توکل کرکے میں گھر آئی تو میاں نے کہا کہ خیر تو ہے۔ میں نے انہیں ڈاکٹر کی بات بتائی تو کہنے لگے کہ ابھی میری ایک ٹیکسی والے سے بات ہوئی تھی۔ انہوں نے بھی یہی بات بتائی ہے۔ ان کی بیٹی کو بھی ہوگیا تھا۔ انہوں نے عباسی ہسپتال میں ایک مہینے تک رکھا تھا۔ اب کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کریں۔ سب کو یہ بات پتہ چل گئی۔ سب بہت پریشان تھے۔ میرے میاں سب سے زیادہ پریشان تھے۔ دماغ کے ڈاکٹر کے پاس گئے۔ انہوں نے کہا کہ دماغ کی ایم آر آئی کروائیں۔ علاج بھی کافی مہنگا تھا۔ پھر حکیم صاحب سے رابطہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ ایم آر آئی نہ کروائیں۔ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ آپ دوائیاں استعمال کریں جو انہوں نے بتائیں، اسی روز جاکر وہ دوائیاں لیں اور استعمال کیں مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ پھر میرے دیور اور ساس کہنے لگی کہ تم پیسے کی طرف دیکھ رہے ہو آنکھ کا معاملہ ہے کچھ کرو۔ پھر میں میرے میاں اور دیور جگہ جگہ ڈاکٹر کو دکھاتے رہے۔ سول ہسپتال میں گئے تو وہاں آنکھ کے ڈاکٹر تھے جو بھی مجھے دیکھ رہا تھا، وہ حیران تھا اور ڈاکٹر پوچھ رہے تھے کہ یہ کیسے ہوا کتنے روز ہوگئے ایسا تو پہلی مرتبہ دیکھا ہے۔ سو میں کوئی ایک دو کو یہ ہوتا ہے۔ پھر ملیر میں ایک میمن گو تو ہے وہاں جاننے والے ڈاکٹر تھے انہیں دکھایا۔ انہوں نے ڈراپر ڈالے اس سے تھوڑی دیر کیلئے آنکھ کھلی مگر پھر وہی کیفیت۔ آخر انہوں نے پلک کے ڈاکٹر کا بتایا وہاں گئے تو انہوں نے کہا کہ شوگر یا بی پی سے ہوتا ہے۔ میں نے کہا کہ مجھے دونوں چیز نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ چیک کرلیں۔ میں نے کہا کہ کریں۔ اللہ کا شکر ہے کہ میں کبھی ٹینشن نہیں لیتی اور پریشان نہیں ہوتی نارمل تھی۔ اس وقت بھی چیک کرنے سے پتہ چلا کہ مجھے کچھ بھی نہیں ہے تو انہوں نے کہا کہ ایم آر آئی کروائیں یا پھر پلک کا آپریشن کردیں گے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ میرے میاں تیار ہوگئے آپریشن کیلئے۔ اس دوران ایم آر آئی کروائی۔ رپورٹ کلیئر آئی اور دوائیاں لکھ دیں اور ڈاکٹر کہنے لگے ڈیڑھ ہزار کا انجکشن آئے گا وہ لگوائیں آنکھ کھل جائے گی۔ مگر اس سے بھی کچھ نہیں ہوا اس دوران حکیم صاحب کا نمبر مل گیا۔ میں نے انہیں بتایا تو انہوں نے کہا کہ آپ نے سب کچھ کروالیا۔ جبکہ میں نے انہیں نہیں بتایا تھا کہ ایم آر آئی کروائی ہے کیونکہ انہوں نے منع کیا تھا۔ پھر انہوں نے کہا کہ آپ شہد اور عرق گلاب مکس کرکے ڈالیں۔ پھر اس دوران کسی نے بتایا کہ فلاں ڈاکٹر بہت اچھا ہے۔ وہاں گئی تو انہوں نے ڈراپر لکھ کر دیئے وہ ڈالے۔ ایک روز کچھ فائدہ نہیں ہوا تو لیٹے لیٹے مجھے خیال آیا کہ حکیم صاحب نے مجھے شہد بتایا تھا۔ تو پھر حکیم صاحب کا نمبر ملاکر ان سے پوچھا کہ شہد کونسا ہونا چاہئے تو انہوں نے کہا کہ چھوٹی مکھی کا شہد اور نفیس کا عرق گلاب مگر میرے پاس تو عام شہد اور عرق گلاب تھا۔ میں نے وہی ایک ایک چمچ مکس کرکے ڈراپر میں ڈالا اور استعمال کرنا شروع کیا تو مجھے لگا کہ آنکھ کھلنا شروع ہوئی ہے۔ پھر میں نے حکیم عاشق صاحب کو بتایا تو انہوں نے کہا کہ دو تین روز میں آپ کو فائدہ ہے تو ہر دو گھنٹے بعد اس کو ڈالیں اور اللہ کا شکر ہے کہ میری آنکھ کھل گئی۔ جس کے لئے میں نے ڈیڑھ مہینے دھکے کھائے۔
پھر میں نے حکیم صاحب کو بتایا تو انہوں نے کہا کہ آپ کو نہیں پتا کہ اس چیز کے کتنے فائدے ہیں۔ اس کے بعد میں نے بہت کو یہ بناکر بھی دیا کہ جس کی نظر کمزور تھی یا پانی بہتا تھا اس کو بہت فائدہ ہوا۔ مجھے لگتا نہیں تھا کہ میری آنکھ کبھی کھل سکے گی۔ مگر مجھے میرے اللہ پر بھروسہ تھا اور کوئی ٹینشن نہیں تھا۔ میرے میاں اتنے پریشان تھے اور میں ہنس ہنس کر سب سے باتیں کرتی تھی کہ جیسے کوئی بات ہی نہ ہو، حکیم صاحب کے نسخہ نے کمال کردیا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں